প্রচলিত কিরাত মহফিল
যদি মানুষের মাঝে কুরআনের হিফজ এবং তাজবীদ শিক্ষা দেওয়ার আগ্রহ সৃষ্টি করা, কুরআনি শিক্ষার প্রচার প্রসার এবং কুরআনের মাহাত্ম্য বৃদ্ধি করার উদ্দেশ্যে, ভালো নিয়তে তিলাওয়াত করা হয়, যাতে সকল প্রকার মুনকার (শরীয়ত বিরোধী কাজ), লৌকিকতা, নাম যশ ও সুনাম সুখ্যাতি ইত্যাদির উদ্দেশ্য না থাকে তাহলে এজাতীয় অনুষ্ঠান-প্রতিযোগিতার আয়োজন করার অবকাশ আছে। বরং এর মাধ্যমে কুরআনের মুজিযা প্রকাশিত হয়।
![]() |
pngtree.com |
হাদিসে শরীফে এসেছে, রাসূলুল্লাহ
সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়াসাল্লাম ইরশাদ করেছেন;
عَنْ
أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "
تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ جُبِّ الْحُزْنِ " . قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ
وَمَا جُبُّ الْحُزْنِ قَالَ " وَادٍ فِي جَهَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْهُ
جَهَنَّمُ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ " . قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ
وَمَنْ يَدْخُلُهُ قَالَ " الْقُرَّاءُ الْمُرَاءُونَ بِأَعْمَالِهِمْ "
আবু হুরায়রা (রাযিঃ) থেকে বর্ণিত। তিনি বলেন, রাসূলুল্লাহ
(ﷺ) বলেছেনঃ জুব্বুল হুজন থেকে তোমরা আল্লাহর
কাছে পানাহ চাও। সাহাবীগণ বললেনঃ ইয়া রাসূলাল্লাহ, জুব্বুল
হুজন কি? তিনি বললেনঃ জাহান্নামের
একটি উপত্যকা। এ থেকে খোদ জাহান্নামও প্রতিদিন একশ’ বার পানাহ চায়। বলা হলঃ ইয়া
রাসূলাল্লাহ, কে তাতে দাখেল হবে। তিনি
বললেনঃ ঐসব ক্বারী যারা লোকদের দেখানোর জন্য আমল করে।
এ হাদীস শরীফ থেকে স্পষ্ট যে, সুনাম
ও সুখ্যাতির জন্য এ ধরনের অনুষ্ঠানে অংশগ্রহণ করা জায়েয নয়; বরং
এতে কঠিন খোদায়ী শাস্তির আশঙ্কা রয়েছে।
আল্লাহ তায়ালা মুসলিম উম্মাহকে তার সন্তুষ্টি লাভের
আশায় এবং কুরআনি শিক্ষা বিস্তারে এজাতীয় অনুষ্ঠানের আয়োজন করার তাওফিক দান করুন।
সাথে সাথে লৌকিকতা সুনাম, সুখ্যাতি ও অর্থ উপার্জনের
"অসুস্থ প্রতিযোগিতা" থেকে বিরত থাকার তাওফিক দান করুন। স্বীয় অনুগ্রহে
তিনি জাহান্নামের জুব্বুল হুজন উপত্যকা থেকে আমাদের হেফাজত করুন। আমিন।
اگر
نیک نیتی کے ساتھ محض حفظ قرآن اورتجوید کا شوق پیدا کرنے کے لیے اور قرآن کی
تعلیم اور اس کی اشاعت کو عام کرنے اور قرآن کی عظمت بڑھانے کے لیے مظاہرہ قراء ت
کیا جائے ، جس میں ہرقسم کے منکرات حتی کہ ریا اور نام ونمود سے بچاجائے تواس طرح
کی مجلس منعقد کرنے کی گنجائش ہے؛ لیکن مظاہرہ قراء ت میں کسی قسم کی اجرت
یانذرانہ کی خواہش رکھنا اورنذرانہ حاصل کر نے کی غرض سے شرکت کرنا یا ریا اور
شہرت حاصل کرنے کے لیے قرآن پڑھنا جائز نہیں ہے۔
حدیث
میں: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: تعوذوا من جب الحزن، قالوا: یارسول اللہ!
وما جب الحزن؟ قال: واد فی جہنم، یتعوذ منہ جہنم کل یوم مائة مرة، قیل: یا رسول
اللہ! ومن یدخلہ؟ قال: القراء ون المراء ون بأعمالہم۔ (ترمذی، باب ماجاء فی الریا
و السمعة، النسخة الہندیہ ۶۳/۲،
دارالسلام رقم:۲۳۸۳)
اس
حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ نمائش اور نام و نمود کے لئے ایسا پروگرام کرنا اور
اس میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے ؛ بلکہ اس میں سخت ترین عذاب الٰہی کا خطرہ ہے ۔
دارالافتاء،
دارالعلوم
دیوبند
آج کل
محافل میں ایک رواج عام ہوتا جارہا ہے کہ قاری صاحب کے آیت مکمل کرنےپر کھڑے ہو کر
داد دی جاتی ہے، اور عجیب ماحول بنایا جاتا ہے، بعض دفعہ تو دورانِ تلاوت بھی داد
دینے کے لیے آواز بلند کرتے ہوئے کھڑے ہو جاتے ہیں لوگ،شرعاًیہ کیسا عمل ہے؟
جواب
واضح
رہےقرآن مجید میں دورانِ تلاوت قرآن سننے اور خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے، جیسے
کہ سورۃ الاعراف میں ربِّ باری کا فرمان ہے:
{وَإِذَا
قُرِيَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَانْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ}
ترجمہ:"اور
جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگایا کرو اور خاموش رہا کرو، امید ہے کہ
تم پر رحمت ہو۔"
(سورۃ
الاعراف، رقم الآیۃ:204، ترجمہ: بیان القرآن)
لہذا
صورتِ مسئولہ میں قرآنِ مجید کی تلاوت کے وقت درمیان میں داد دینے کے لیے زور سے
چلانا یا زور سے کچھ کلمات ادا کرنا کسی بھی حال میں پسندیدہ نہیں ہے، دورانِ
تلاوت ایسا کرنا قرآنِ کریم کے ادب کے خلاف ہے، جس سے بچنا لازم
ہے،البتہ تلاوت کے دوران جب قاری صاحب کچھ دیر کے لیے خاموش
ہوتے ہیں اس وقت وقار کے ساتھ آہستہ آواز میں کلام اللہ کی عظمت کا اظہار کرتے
ہوئے، اللّٰه أكبریا سبحان اللّٰه وغیرہ کہا جائے
تو اس میں حرج بھی نہیں۔
فتاویٰ
عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:
"رفع
الصوت عند سماع القرآن والوعظ مكروه، وما يفعله الذين يدعون الوجد والمحبة لا أصل
له، ويمنع الصوفية من رفع الصوت وتخريق الثياب، كذا في السراجية".
(کتاب
الکراهیة، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من
القرآن، ج:5، ص:319، ط:مکتبہ رشیدیہ)
عنوان:
کیا موجودہ مظاہرہ قراءت کے جواز کی شریعت میں دلیل ہے ؟
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان شرع عظام مسئلہ ذیل کے بارے
میں، کیا موجودہ مظاہرہ قرائت کے جواز کی شریعت میں دلیل ہے ؟ بعض لوگ چند
قرائقرآن شریف کو کسی محفل یا مجمع میں مدعو کرکے اس میں قرائت کا مقابلہ کرواتے
ہیں ،پھر اس پر انعام کے نام پر اجرت دیتے ہیں ،کیا اس سے اسلام کی اشاعت ہوگی،یا
یہ کہ کوئی بدعت یااشتراء بآیات اللہ تمنا قلیلا ہے اور کیا قراء کی عملی زندگیوں
کیلئے اچھا عمل ہے ۔ برائے کرم جواب دینے کی زحمت گوارافرمائیں
جواب نمبر: 166890
بسم
الله الرحمن الرحيم
Fatwa:
275-209/sd=3/1440
اگر
نیک نیتی کے ساتھ محض حفظ قرآن اورتجوید کا شوق پیدا کرنے کے لیے اور قرآن کی
تعلیم اور اس کی اشاعت کو عام کرنے اور قرآن کی عظمت بڑھانے کے لیے مظاہرہ قراء ت
کیا جائے ، جس میں ہرقسم کے منکرات حتی کہ ریا اور نام ونمود سے بچاجائے تواس طرح
کی مجلس منعقد کرنے کی گنجائش ہے؛ لیکن مظاہرہ قراء ت میں کسی قسم کی اجرت
یانذرانہ کی خواہش رکھنا اورنذرانہ حاصل کر نے کی غرض سے شرکت کرنا یا ریا اور
شہرت حاصل کرنے کے لیے قرآن پڑھنا جائز نہیں ہے۔
حدیث
میں: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: تعوذوا من جب الحزن، قالوا: یارسول اللہ!
وما جب الحزن؟ قال: واد فی جہنم، یتعوذ منہ جہنم کل یوم مائة مرة، قیل: یا رسول
اللہ! ومن یدخلہ؟ قال: القراء ون المراء ون بأعمالہم۔ (ترمذی، باب ماجاء فی الریا
و السمعة، النسخة الہندیہ ۶۳/۲، دارالسلام رقم:۲۳۸۳)
اس
حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ نمائش اور نام و نمود کے لئے ایسا پروگرام کرنا اور
اس میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے ؛ بلکہ اس میں سخت ترین عذاب الٰہی کا خطرہ ہے ۔
واللہ
تعالیٰ اعلم
80050 |
جائز
و ناجائزامور کا بیان |
جائز
و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
محفلِ
حُسنِ قراءت کے موقع پر دورانِ تلاوت قاری صاحب کو داد دینا جائز ہے یا نہیں؟ قاری
صاحب کے ہاتھ یا ماتھے کا بوسہ لینا کیسا ہے؟ دورانِ تلاوت "سبحان اللہ"
یا "ما شاء اللہ" کہنا کیسا ہے؟ قاری صاحب کو داد دینے کے لیے دورانِ
تلاوت اُٹھنا اور ہاتھ اُٹھانا کیسا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
قرآنِ
کریم کی تلاوت اور اُس کا سننا کارِ ثواب ہے، نیز لوگوں کے دلوں میں قرآن کریم اور
تجوید کا شوق پیدا کرنے کے لیے اور قرآن کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے اجتماعات
منعقد کرنا فی نفسہٖ جائز ہے۔ لیکن چونکہ آج کل مروّجہ محافل یا اجتماعات میں بہت
سے منکرات دیکھنے اور سننے کو ملتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ایسی بابرکت محفلوں کے
بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہونے شروع ہوچکے ہیں۔ مثلاً:
بلا ضرورت ویڈیوز اور تصاویر بنائی جاتی ہیں، قرآن پڑھنے اور سننے کے آداب کا لحاظ
نہیں رکھا جاتا، بعض اوقات اجتماع ایسی جگہ یا ایسے وقت میں کیا جاتا ہے جو لوگوں
کے لیے تکلیف کا سبب بنتا ہے۔ چنانچہ ایسی محافل بسا اوقات گناہ کا سبب بھی بن
جاتی ہیں۔ ذیل میں محفلِ حُسنِ قراءت کے آداب لکھے جا رہے ہیں، اُس کی پاسداری
کرنا ضروری ہے:
1.
محفلِ حُسنِ قراءت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور لوگوں کے دلوں میں قرآن کی
تعلیم اور تجوید کا شوق پیدا کرنا مقصود ہو۔
2.
ریاء اور نام و نمود مقصود نہ ہو۔
3.
تلاوتِ قرآن میں تجوید کے قواعد کی مکمل رعایت کی جائے، اور قرآن کریم کو خوش
الحانی سے پڑھا جائے۔
4.
گانے کے طرز میں قرآن نہ پڑھا جائے۔
5.
قُرّاء اور سامعین حضرات قرآن کریم کے آداب کا پورا اہتمام کریں۔ یعنی قرآن پڑھتے
اور سنتے وقت اصل توجہ مضامینِ قرآن کی طرف رکھیں، اور جو لوگ قرآن کے مفاہیم نہیں
سمجھ سکتے، ان کو اس پر توجہ دینی چاہیے کہ قرآن کا تلفظ کس طرح کیا جا رہا ہے۔
6.
مرد و زن کا اختلاط نہ ہو۔
7.
لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بقدرِ ضرورت ہو، جس سے کسی کے آرام یا عبادت میں خلل واقع
نہ ہو۔
8.
زیبائش و آرائش کے لیے فضول خرچی نہ کی گئی ہو۔
9.
ایسی جگہوں پر محافل کا انعقاد نہ کیا جائے، جس سے لوگوں کو تکلیف ہو۔
10.
قاری صاحب کے لیے تلاوتِ قرآن کریم پر اُجرت طے نہ کی جائے، البتہ قاری صاحب کی
آمد و رفت اور کھانے پینے کا خرچہ اُجرت میں شامل نہیں ہے، لہٰذا اُس کے دینے اور
لینے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔
مذکورہ
بالا شرائط کی رعایت کرتے ہوئے قاری صاحب کو اچھے اور خوب صورت لب و لہجہ میں
تلاوت کرنے پر داد دینا یا دعائیہ کلمات کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز قاری
صاحب کا ہاتھ یا ماتھا چومنا بھی جائز ہے، بشرطیکہ اس میں تعظیم کی نیت نہ ہو۔
حوالہ جات
في الأعراف:
(204-205):
{وَإِذَا
قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (204)
وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ
الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ}.
سنن
الترمذي (4/593):
"عن
أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ
جُبِّ الحَزَنِ»، قالوا: يا رسول الله: وَمَا جُبُّ الحَزَنِ؟ قال: «وَادٍ فِي
جَهَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْهُ جَهَنَّمُ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ». قلنا: يا
رسول الله وَمَنْ يَدْخُلُهُ؟ قال: «الْقَرَّاءُونَ الْمُرَاءُونَ
بِأَعْمَالِهِمْ».
تفسير
ابن كثير (3/538):
"وقال
مبارك بن فَضالة، عن الحسن: إذا جلست إلى القرآن، فأنصت له."
الدر
المختار (6/383):
مسند
أحمد بن حنبل (2/341):
"عن
أبي هريرة أن رسول الله - صلى الله عليه و سلم - قال: من استمع إلى آية من كتاب
الله - تعالى - كتب له حسنة مضاعفة، ومن تلاها كانت له نورا يوم القيامة."
التفسير
المنير (9/229):
"أما
ترك الاستماع والإنصات للقرآن المتلو في المحافل، فمكروه كراهة شديدة، وعلى المؤمن
أن يحرص على استماع القرآن عند قراءته، كما يحرص على تلاوته والتّأدّب في مجلس
التّلاوة."
تفسير
الشيخ المراغى (9/156):
"وما
يفعله جماهير الناس فى المحافل التي يقرأ فيها القرآن كالمآتم وغيرها من ترك
الاستماع والاشتغال بالأحاديث المختلفة، فمكروه كراهة شديدة."س
البحر
الرائق (5/82):
"وقال
الإمام شمس الأئمة السرخسي: ففي هذا الحديث [كان أصحاب رسول الله يكرهون الصوت عند
ثلاث الجنائز والقتال والذكر] بيان كراهة رفع الصوت عند سماع القرآن والوعظ، فتبين
به أن ما يفعله الذين يدعون الوجد والمحبة مكروه لا أصل له في الدين."
الدر
المختار (6/383):
"(ولا
بأس بتقبيل يد) الرجل (العالم) والمتورع على سبيل التبرك. درر. ونقل المصنف عن
الجامع أنه لا بأس بتقبيل يد الحاكم والمتدين (السلطان العادل)، وقيل: سنة. مجتبى.
(وتقبيل رأسه) أي العالم (أجود)، كما في البزازية."
رد
المحتار (26/436):
"(قوله:
وأما على وجه البر، فجائز عند الكل)، قال الإمام العيني بعد كلام: فعلم إباحة
تقبيل اليد والرجل والرأس والكشح، كما علم من الأحاديث المتقدمة إباحتها على
الجبهة، وبين العينين، وعلى الشفتين على وجه المبرة والإكرام."
محمد
مسعود الحسن صدیقی
دارالافتاء
جامعۃ الرشید، کراچی
26/شعبان
المعظم/1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب |
محمد
مسعود الحسن صدیقی ولد احمد حسن صدیقی |
مفتیان |
سیّد
عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |
No comments